مینا کماری ایک لیجنڈ اداکارہ

مینا کماری
ایک اداکارا ایک شاعرہ،
کچھ نام اور کردار اتنے بڑے ہوتے ہیں جن پر لکھنے کے لیے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ اپنے ذہن کو یکجا کرنا ہوتا ہے۔ قلم سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ بھئ ذراسنبھل کے ۔۔ ان کی شان میں کچھ گستاخی نہ ہو جائے۔ کچھ کمی نہ رہ جائے اور ان کے متعلق لکھنے کا کچھ حق ادا ہونا چاہیے۔ سو آج میں ایک لیجنڈ اداکارہ کی برسی کے موقع پر ان کے بارے میں لکھنے لگی ہوں۔ جن کا نام بہت بڑا تھا اور کام اس سے بھی کہیں زیادہ،کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ فٹ سے ان سے متاثر ہو جاتا ہے۔ میرے لیے اداکارا مینا کماری بالکل ایسی ہی تھیں۔ گو میری پسندیدہ اداکارا تو وحیدہ رحمان رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں مدھو بالا کی خوبصورتی سے متاثر ہوں۔ سادھنا بھی اچھی لگی۔ راج شری بھی خوبصورتی کا مجسمہ تھی ۔ مینا کماری کے بارے میں اسکی خوبصورتی کا کوئی معیار میں طے نہیں کر پائی۔ جیسے راج شری کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ مالا سنہا کے دانت موتیوں جیسے تھے اور وہ ہنستے ہوئے اچھی لگتی تھی۔ میناکماری میں جانے کیا بات تھی۔ بظاہر وہ متناسب ذرا موٹے نقوش کی مالک تھی۔ لیکن اس کا ہر نقش اپنا منہ بولتا فسانہ تھا، اس کی آنکھوں میں اک سحر تھا جس میں ہیرو تو گرفتار ہوتا ہی تھا پر ناظرین بھی اس گرفت میں آ جاتے تھے۔ مجھے اس کی شخصیت اس کے حسن میں اک رعب نظر آتا تھا اور اس کی ذات میں اک رکھ رکھاؤ، جو میں نے کئی بار محسوس کیا۔ خاص طور پر فلم صاحب بی بی اور غلام میں، اور فلم سانجھ اور سویرا میں۔
مینا کماری کا اصل نام تو مہ جبیں تھا۔ اس کی پہلی فلم لیدر فیس کے بعد وجے بھٹ نے اس کا نام تبدیل کر دیا تھا اور اس کے لیے تین نام پربھا، کملا اور مینا سلیکٹ کیے گئے اورآخر اسے مینا کا نام مل گیا۔ اور پہلی فلم میں اس کا نام مینا کماری بن گیا۔ ویسےاس کا نک نیم منجو تھا۔ وہ تین بہنیں تھیں۔ اس کی ایک بہن کی شادی کامیڈین اداکار محمود سے ہوئی تھی۔ مینا نے چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا اور یہ فنی سفر طے کرتے ہوئے اپنے آخری لمحات تک انڈین فلم انڈسٹری کو دئیے۔ اس کو چالیس سال میں اسے وہ بے پناہ کامیابی، عزت اور شہرت ملی جسں تک پہنچنا کسی اداکارا کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ پہلی اداکارا تھی جس نے پہلا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ اور یہ ایوارڈ اسے فلم بیجو باوارا پر ملا تھا۔ بیجو باورا ہی وہ پہلی فلم تھی جس نے مینا کو شہرت دی۔ وہ اپنے رول اور ڈائلاگز پر بہت دھیان دیتی تھی۔ اور اکیس سال کی عمر میں ہی وہ اداکاری کی پختگی کو پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد فلم انارکلی کے لیے بھی مینا کو ہی منتخب کیا گیا تھا لیکن چند وجوہات کی بنا وہ فلم نہ کر سکیں لیکن اس فلم کے ذریعے ڈائریکٹر کمال امروہی اور مینا کی دل بستگی ہو گئی جو بعد میں شادی تک پہنچی۔ یوں وہ کمال امروہی کی دوسری بیوی بن گئی۔ اپنے شوہر کی فلم دائرہ کی خاطر مینا نے فلم امر چھوڑ دی تھی۔ جبکہ اور کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ کوئی دلیپ کمار کی فلم چھوڑ دے۔ کمال امروہی کی فلم دائرہ کے دنوں میں گورودت ایک فلم بنا رہے تھے صاحب بی بی اور غلام، اور وہ چھوٹی بہو کے رول کے لیے مینا کماری کو لینا چاہ رہے تھے۔ لیکن کمال امروہی نے منع کر دیا کہ فلم میں چھوٹی بہو کے کردار میں نیگیٹو شیڈز ہیں۔ ایک اور اداکارا کو اس رول کے لیے سلیکٹ کر لیا گیا لیکن گورودت کو تسلی نہ ہوئی۔ وہ چاہتے تھے ہر حال یہ رول مینا ہی کرے۔ اور انھوں نے رول کے لیے مینا کو راضی کر لیا۔ اور مینا نے بھی اس کردار کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ یوں ایک اور پاور فل کردار اور شہرت یافتہ فلم مینا کے حصے میں آئی۔
وہ ایسی اداکارا تھی جس کی میں نے تعریف اور شہرت پہلے سنی اور اس کی مداح میں بعد میں بنی۔ ورنہ وحیدہ رحمان کو میں نے پالکی فلم میں دیکھ کر پسند کیا اور مدھو بالا کی خوبصورتی مغل اعظم میں دیکھ کر متاثر ہوئی۔ لیکن یہاں اس کے برعکس ہوا۔ فلم پاکیزہ اتنی مشہور ہوئی تھی کہ مجھے مینا اور پاکیزہ فلم دونوں کو دیکھنے کا بہت اشتیاق ہو رہا تھا۔ پھر فلم کا خوبصورت میوزک، گیت میرے شوق کو اور ہوا دے رہے تھے۔ اور جب میں نے یہ فلم دیکھ لی تو مجھے واقعی وہ بہت اچھی لگی اور میں نے اسکی پہلی فلم ہی اتنی ہٹ دیکھی تو میرا متاثر ہونا لازم تھا۔


پاکیزہ فلم میں کہانی، اداکاری، گیت، میوزک ہر چیز پرفیکٹ تھی۔ اس فلم کا ڈائلاگ بھی بہت مشہور ہوا تھا۔ آپ کے پاؤں بہت خوبصورت ہیں انھیں زمین پر مت اتارئیے گا میلے ہو جائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد حسینائیں اپنے پاؤں پر بھی توجہ دیتی ہوں گی۔ پاکیزہ مجھے ایک کلاسیکل اور کچھ آرٹ مووی کی طرح لگی۔ اس کے بعد میں نے مینا جی کی اور فلمیں دیکھنا شروع کیں۔ اور بہت ساری فلمز دیکھیں۔شائد ہی چند ایک فلمز ہوں گی جو میں نہ دیکھ پائی ہوں۔ اور ان کی اتنی ساری فلم دیکھنے کا ایک راز اور بھی تھا۔ کسی نے بتایا کہ مینا جی اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کچھ چھپا کر رکھتی ہیں۔ کچھ خاطر خواہ وجہ معلوم نہ ہو سکی کہ کیوں ؟ سو میں فلم میں ڈھونڈتی رہتی یا ان کے رقص میں دیکھنے کی کوشش میں ہوتی کہ کب وہ اپنا بایاں سامنے لائیں۔ وہ سامنے لاتیں لیکن تیزی سے موومنٹ بدل جاتی اور سین آگے بڑھ جاتا۔ کئی فلمی میگزین دیکھے کہ شائد یہ عقدہ کھلے۔ اور آخر کار یہ راز کھل ہی گیا۔ پتہ چلا کہ فلم بیجو باورا کی شوٹنگ کے دوران کیمرا ٹرالی مینا جی کے ہاتھ پر سے گزر گئی تھی جس سے ان کی انگلی زخمی ہوئی تھی۔
کہتے ہیں فلم پاکیزہ میں اس نے اپنی تمام تر اداکاری کا نچوڑ دے دیا ۔ اور فلم میں استعمال ہونے والے ڈریسز پر اس نے خاص توجہ دی حتی کہ فلم کے پردے تک منتخب کرنے میں بھی۔ فلم کے لیے اس نے ذاتی طور پر راجستھان اور حیدر آباد کا خاص وزٹ کیا۔ اور نوردات منتخب کیے۔ جو کچھ اصلی گولڈ کے تھے اور کچھ بہت ہی قیمتی پتھر کے تھے۔

پاکیزہ فلم کمال امروہی نے ڈائریکٹ کی تھی۔ یہ فلم انیس سو ستاون میں بننا شروع ہوئی تھی اور ستر فیصد مکمل تھی مگر میاں بیوی کی ان بن کی بدولت ڈبہ بند ہو چکی تھی۔ کہ اتنے سالوں بعد اداکار سنیل دت اور نرگس نے اس کی چند ریل دیکھ لیں۔ اور انھوں نے جا کر دونوں کو فلم مکمل کرنے کے لیے قائل کیا۔ نرگس، سنیل دت اور کچھ اور اداکاروں کی میٹنگ کے بدولت یہ مرحلہ طے ہوا۔ کہتے ہیں تب مینا کماری کی صحت تب اتنی اچھی نہ تھی سو شوٹنگ کے دوران اس کے جذباتی حوصلہ افزائی کے لیے بہت سے اداکار آتے رہے۔ یہاں تک کہ مدھو بالا، اشوک کمار، وحیدہ رحمان اکثر سیٹ پر آتے ۔ تین ماہ میں فلم کا باقی کام مکمل کیا گیا۔ اور ٹوٹل دس ماہ میں فلم کے باقی نامکمل کام پورے کیے گئے۔ اور مینا کے جانے کے بعد یہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ فلم پاکیزہ کا میوزک بھی کلاسیکل ٹچ لیے بے حد خوبصورت اور ہٹ کر ہے۔ ایک بار لتا منگیشکر نے کہا تھا۔ کہ اس فلم کی اتنی شہرت، کامیابی اور نام پانے کے لیے نہ تو اداکارا موجودتھی اور نہ ہی فلم کے موسیقار غلام محمد باقی تھے۔ سو اس بات کا اسے ہمیشہ بہت دکھ رہے گا۔

فلم انڈسٹری میں جس طرح دلیپ کمار، راجکپور اور دیو آنند ایک دوسرے کو اداکاری میں مقابلہ دئیے ہوئے تھے بالکل ایسا ہی نرگس، مدھو بالا اور مینا کماری کے ساتھ تھا۔ اور دلیپ کمار اگر شہنشاہ جذبات تھے تو مینا کماری کو ملکہ جذبات کا ٹائیٹل ملا تھا۔ وہ ایسی اداکارا تھی جو مصنوعی آنسو لانے کے لیے اپنی آنکھوں میں گلیسرین استعمال نہیں کرتی تھی۔ ان کی ایک کو اسٹار نادرہ نے کہا تھا۔ کہ وہ بالکل نارمل حالت میں ہوتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی سین شروع ہوتا تو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق مینا کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنا شروع ہو جاتے۔

مینا کماری کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ مرزا غالب کی شاعری کی بہت بڑی فین تھیں۔ اور اس کے پاس غالب کا سارا کلام موجود تھا۔ اس کی اپنی ایک اچھی خاصی لائبریری اور کولیکشن موجود تھی۔ فلم بے نظیر کے سیٹ پر مشہور ڈائریکٹر بمل رائے کے اسسٹنٹ نے مینا کماری کو رائٹر، شاعرگلزار سے ملایا اور یہاں سے اس کی زندگی میں اک نیا باب شروع ہوا شاعری کا، اور وہ خود بھی شعر کہنے لگی اور ناز اس کا تخلص تھا۔ زندگی میں عزت، دولت، شہرت سب کچھ اسکے پاس تھا۔ لیکن بعض دفعہ انسان پھر بھی تشنہ رہ جاتا ہے۔ یہ بات مینا کماری پر صادق آئی۔ جہاں اس کی پروفیشنل زندگی میں سب ہرا بھرا تھا وہیں اس کی ذاتی زندگی اتنی ہی ڈسٹرب تھی۔ پہلے وہ کمال امروہی کی دوسری بیوی بنی۔ پھر وہ چاہتے ہوئے بھی ماں نہ بن پائی۔ ان دنوں وہ عروج پر تھی۔ جب میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوئی۔ جسے بد خواہوں نے ہوا دی۔ اور میاں بیوی میں دوری ہوئی۔ یہ جدائی اور زخم اس نے اپنے دل پر لیے۔ میں جب بھی مینا جی کی لکھی شاعری پڑھتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ ان کے ٹوٹے دل کی صدائیں ہیں۔ جو غزل اور نظم کی صورت کاغذ پر پھیلے ہیں۔ دکھ اور غموں نے جیسے اسے مات دے دی ۔ اور اس کے اندر کی شاعرہ جیسے بیدار ہو گئی تھی۔
ہم سے کہاں بھول ہوئی
اے وقت سنبھال مجھے
اور
اک بدن نے اپنی روح کو تیاگ دیا
یہ بھی نہ سوچا بدن تڑپتا رہے گا
اور
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا دھجی دھجی رات ملی
جس کا جتنا دامن تھا اتنی ہی سوغات ملی

رم جھم رم جھم بوندوں میں زہر بھی ہے امرت بھی ہے

آنکھیں ہنس دیں دل رویا یہ اچھی برسات ملی

جب چاہا دل کو سمجھیں ہنسنے کی آواز ملی
جب چاہا دل کو سمجھانا ہنسنے کی آواز ملی
جیسے کوئی کہتا ہو لو پھر تم کو مات ملی

ماتیں کیسیں گھاتیں کیسیںتے رہنا آٹھ پہر
دل سا جب ساتھی پایا بے چینی بھی ساتھ ملی

ہونٹوں تک آتے آتے جانے کتنے روپ بھرے

جلتی بجھتی آنکھوں میں سادہ سی جو بات ملی

اس نےاپنے وقت کے تقریبا سبھی اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ اور وہ اچھی بھی لگیں۔اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار اور ملکہ جذبات مینا کماری نے دو تین کامیڈی فلمیں بھی دیں۔ جیسے فلم کوہ نور، آزاد وغیرہ۔ مجھے مینا کماری کی فلم مس میری بھی بہت اچھی لگی، جس میں اس نے کشور کمار کے ساتھ تیکھے چتون کے ساتھ ایسی اداکاری کی جو اسے ورسٹائل ثابت کرتی ہے۔ اس کی نوے فیصد فلمیں بہت عمدہ اور کامیاب رہیں۔ بیجو باورا، فٹ پاتھ، دو بیگھا زمین، آزاد، شاردا، شرارت، زندگی اور خواب، پیار کا ساگر، بے نظیر، چتر لیکھا، بھیگی رات، غزل، نور جہاں، بہو بیگم، پھول اور پتھر، پورنیما، میں چپ رہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ اور ساری فلمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ تھیں۔ جن میں پاکیزہ، دل اپنا اور پریت پرائی، سانجھ اور سویرا، چراغ کہاں روشنی کہاں،مس میری، ایک ہی راستہ، دل اک مندر، اور منجھلی دیدی مجھے بہت اچھی لگیں۔
فلم منجھلی دیدی میں مینا کماری نے اداکار دھرمیندر کے ساتھ کام کیا تھا۔ اور ایک لڑاکا جیٹھانی کے بالمقابل جس خوبی سے ایک دیورانی کا رول نبھایا وہ قابل تعریف ہے۔
دلیپ کمار، دیو آنند، راجکپور، راجکمار، راجندر کمار، پردیپ کمار، بھارت بھوشن، سنیل دت، دھرمیندر، اشوک کمار، ششی کپور، بلراج ساہنی، کشور کمار ، اجیت، رحمان فلموں میں اس کے بالمقابل ہیرو رہے۔ ان کے علاوہ وہ مجھے گورودت کے ساتھ فلم سانجھ اور سویرا میں بھی بہت اچھی لگیں۔ اداکار راجیش کھنہ کے ساتھ اس نے فلم دشمن میں کام کیا اور ونود کھنہ کے ساتھ فلم میرے اپنے کی ۔
مینا کماری کی آنکھوں میں اک جادو سا محسوس ہوتا تھا۔ اور اس کی آواز بے انتہا خوبصورت تھی۔ آواز اور ڈائلاگ ڈلیوری سے ایک دلکش سنگم سا بن جاتا تھا۔ اداکار پردیپ کمار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ موتی برستے تھے جب وہ بولتی تھی۔ الفاظ ترستے تھے کہ مینا کماری انھیں اپنے ہونٹوں سے ادا کرے۔
مینا کماری کے بعد بہت سی اداکارئیں آئیں اور انھوں نے اس جیسا بننا چاہا لیکن نہ بن پائیں۔ سو وہ ایک ہی مینا کماری تھی اور اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ زندگی سے کافی کچھ پا کر بھی وہ اس بات کی تفسیر بن گئی۔
عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کونسی نہ وہ سمجھ سکے نہ ہم

وہ ایک بہت بڑی اداکارا تھی فلمی صنعت کے آکاش پر ایک چاند کی طرح اس کی جگمگاہٹ محسوس ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعرہ بھی تھی۔ جس کے ٹوٹے دل سے صدائیں نکلتی تھیں۔
آندھی کے چراغ

آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہو گا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہو گا

ذرے ذرے پہ جڑے ہوں گے کنوارے سجدے
اک اک بت کو خدا اس نے بنایا ہو گا

پیاس جلتے ہوئے ہونٹوں کی بجھائی ہو گی
رستے پانی کو ہتھیلی پہ سجایا ہو گا

مل گیا ہو گا اگر کوئی سنہرا پتھر
اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہو گا
مینا کماری
۔۔۔۔۔۔۔

آرٹیکل از کائنات بشیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

7 comments on “مینا کماری ایک لیجنڈ اداکارہ

  1. مینا کماری کے متعلق آپ نے اتنا کچھ لکھا ہے ۔ مجھے تو صرف نام ہی یاد تھا ۔ میں سال میں ایک سے تین تک فلمیں دیکھتا تھا اور پچھلی چار دہائیاں بغیر فلم دیکھے گذریں ۔ اتنا یاد ہے کہ بیجو بارہ دیکھی تھی جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا

    Like

  2. بہت خوب لکھا آپ نے مینا کماری کے متعلق۔۔۔ بیشک مینا کماری ایک لیجنڈ اداکارہ تھی۔۔۔۔ اس قدر زبردست آرٹیکل لکھنے پر مجھ خاکسار سے داد قنول کیجیے۔۔۔ 🙂

    جنید

    Like

  3. بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔ مجھے پوری امید تھی کہ اتنی بڑی دنیا میں کسی نہ کسی کونے سے میں تو ان کے فین موجود ہوں گے۔ اور جو نہ ہوں تو شائد ان کے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔۔۔

    Like

  4. جی

    بیجو باورا کی شوٹنگ کے دوران ان کی انگلی زخمی نہیں بلکہ پوری طرہ سے کٹ گئی تھی. اسی لیئے وہ چھپاتی تھیں

    Like

Leave a reply to Kainat Bashir Cancel reply